جلائی جب بھی کہیں پر ترے خیال کی لو

جلائی جب بھی کہیں پر ترے خیال کی لو
دمک اٹھی مرے چاروں طرف جمال کی لو
یہ ٹھیک ہے کہ مرے سب علوم ناقص ہیں
مگر میں کیوں نہ درخشاں رکھوں سوال کی لو
مجھے اسی سے میسر ہے روشنی ساری
میں کیسے بجھنے دوں دل میں ترے ملال کی لو
یہ رات میری سیہ بختیوں کی تاریکی
یہ چاندنی مرے چہرے کے زرد تھال کی لو
ہواؤں کی کوئی اوقات ہی نہیں فرحت
جلی ہوئی ہو فضا میں اگر کمال کی لو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *