جنہیں روشنی کی طلب تھی دھوپ میں چل دئیے

جنہیں روشنی کی طلب تھی دھوپ میں چل دئیے
جنہیں سیاہ شب میں قرار تھا وہیں رک گئے
تجھے پھر پلٹ کے وفا کے زخموں نے آلیا
دل سوگوار بتا ترے لیے کیا کروں
قفس نفس بڑا تنگ ہے مرے چار سو
تری آرزو کا حصار اس پہ مزید ہے
میں سنبھل ہی جاؤں گا زندگی میں کسی طرح
ترے حسن و عشق کے داؤ پیچ کی خیر ہو
وہی دل کہ جس کو تو چھوڑ آیا ہے گاؤں میں
اسے ایک بار تو لے کے آنا تھا شہر میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *