گردن گردن ہم قسمت کے وار میں گم
اپنا کیا ہے جب بھی کچھ گھبرائے ہیں
گھر سے نکلے اور ہوئے بازار میں گم
جیسے کوئی تار پرویا ہو ان میں
کتنے لوگ کھڑے ہیں ایک قطار میں گم
کیسے کیسے لوگ تھے مرکز خاک ہوئے
کیسے کیسے شہر ہوئے آثار میں گم
سوچ ہی سوچ میں کبھی کبھی لگتا ہے تو
آنکھ سے نکلا اور ہوا دیوار میں گم
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)