جو ہوتا ہے، وہ نہ ہونے سے بچ جاتا ہے

جو ہوتا ہے، وہ نہ ہونے سے بچ جاتا ہے
ہاں میں سوچتا اور دکھی ہوجاتا
لڑکپن بھی ایک موسم ہوتا
ناپختہ اور معصوم
اور اگر غمناک بھی ہو
اور سوگوار بھی
تو قیامت ڈھا دیتا ہے
میں نے ایسے ہی کسی غمناک
اور سوگوار موسم میں لڑکپن بسر کیا ہے
سرابی کی محبت
اس کی دیوانگی
اور جنون میں محبوس
اور اس کی نفرت سے مغلوب ہو کے
محبت زیادہ طاقتور تھی
لیکن نفرت غالب اور حاوی
کہ یہ بھی اسی محبت ہی کا معجزہ تھی
ورنہ ہوتی ہی کیوں
“ہونا” ہی تو “ہستی” ہے، جو “ہوتا” ہے وہ “نہ ہونے” سے بچ جاتا ہے
لیکن کبھی کبھی کوئی “ہونا” “نہ ہونے” سے بھی بدتر ہوتا ہے
میں نے یہ جان لیا تھا
اور سمجھ لیا تھا
اور پھر ٹھان بھی لیا تھا
کہ “ہونا” ہے
اور ایسے “ہونا ہے” کہ کپڑے کوئی نہ دیکھے،
چہرہ کوئی نہ دیکھے،
گھر کوئی نہ دیکھے،
بس مجھے دیکھے اور میرے ہونے کو
کتنا مشکل ہے
یہ “ہونا” بھی
کبھی کبھی تو اتنی شدت سے دل کرتا ہے
نا ہی ہوتے تو بہتر تھا
لیکن وہ آرزو ہی کیا جو پوری ہو جائے
آرزو تو ہے ہی نا پورا ہونے کا نام
حسرت سے اک ذرا سی پہلی سٹیج
نا پورا ہونا، نا ملنا، نا حاصل ہونا،
بالکل سرابی کی طرح
میں اسے پانے کی آرزو کرتا
اور وہ دور ہو جاتی
میں پیچھے ہٹتا تو ہر سُو نظر آنے لگتی
میں پیچھے ہٹتا،
دور ہوتا،
رغ بدل لیتا،
راستے تبدیل کر لیتا،
نئی نئی منزلیں متعین کر لیتا،
اور یہ سب پیچھے ہٹنا، دور ہونا،
رخ بدل لینا،
یہ راستے اور یہ منزلیں
سب مل کے مجھے پھر اُسی کی جانب دھکیل دیتے
مجھے اس کی جانب دھکیل دیتے
اور میں پھر ہار جاتا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *