چاند سے ناراض رہتا

چاند سے ناراض رہتا
سب منزلیں، سب راستے
مل کر مجھے اس کی جانب دھکیلتے
اور میں پھر ہار جاتا
میں ہار جاتا
اپنے زخمی وجود
اور زخمی روح سمیت
اور کہتا
میں ہاروں گا نہیں
میں اچھے جوتے پہنوں گا
قیمتی کپڑے خریدوں گا
میں خوبصورت ہو جاؤں گا
اور سب مجھے جانیں گے
مجھے چاہیں گے
مجھے اپنانے کی خواہش کریں گے
اور میں اسی خواہش میں نکل پڑتا
سڑکوں پر،
گلیوں میں،
جنگلوں میں،
قبرستانوں میں،
پھرتا، سوچتا، جاگتا، بھاگتا،
پتھروں سے ٹکراتا
دھول سے کھیلتا
راتوں سے پیار کرتا
چاند سے ناراض رہتا
سورج کو آنکھیں دکھاتا
اور آندھیوں کو ٹھوکریں مارنے کی کوشش کرتا
وحشتیں میرے ساتھ ہوتیں
دہشت مجھ پہ طاری رہتی
اور ویرانی میرے آگے آگے رہتی
میں نے دیکھا لوگ خوفزدہ ہیں
رات خوفزدہ ہے
میں خوفزدہ ہے
پورے کا پورا ماحول خوفزدہ ہے
میں نے جانا
لوگ تنہا ہیں
میں تنہا ہوں
رات تنہا ہے
شہر تنہا ہے
پورے کا پورا موحول تنہا ہے
میں نے محسوس کیا
سب اداس ہیں
میں بھی
تو بھی
یہ بھی
وہ بھی
کوئی بھی ایسا نہیں جو اداس نہ ہو
وہ بھی جو اداس کرنے والے ہیں
جو ڈراتے ہیں اور تنہا کر دیتے ہیں
اور یہ تو قانون فطرت ہے
جو ڈراتے ہیں وہ ڈرتے ضرور ہیں
جو اداس کرتے ہیں وہ اداس ہوتے ضرور ہیں
جو رلاتے ہیں وہ روتے ضرور ہیں
اس لئے تو سبھی اکیلے ہیں
میں بھی اور سرابی بھی
اور اس کے ارد گرد قیمتی کپڑوں والے بھی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *