ترے خواب میں بھی ہوئی کہیں تری راہ گُم
مرے غمزدہ
مرے چشمِ تر
کہاں ہو گئی تری چاہ گُم
اسی چاہ میں تری منزلوں کے نشان تھے
اسی چاہ میں تھی امان
سارے گمان رہتے تھے دور
دور خیال سے کسی حال میں
جسے لب پہ لانا فضول تھا
اسی چاہ میں تھے یقین بھی
اسی چاہ میں تھے نصیب بھی
جو نہیں رہی تو پناہ گم
مرے چشم تر
مرے غمزدہ
مرے غمزدہ تری سانس گُم، ترا درد گُم، تری آہ گُم
فرحت عباس شاہ