روح کی کتنی شکایات سنیں
ہجر نے زخم لگایا کیسا
مختصر وصل نے بھی ایک جھلک دکھلا کر
کس قدر دل کو پریشان کیا
وقت نے چرکے لگائےکیسے
زندگی کس طرح ٹکراتی رہی
رات، دن، دھوپ، اندھیرے کالے
دوپہر، شام، تھکن، اور سفر
موم سے ڈھالا ہوا جیون ہے
اور زمیں شمس سے ٹوٹا ہوا ہے ٹکڑا کہ ابھی سرد نہیں
ہاں ابھی سرد نہیں اندر سے
اک دہکتی ہوئی تاثیر چھپی ہے اس میں، پاؤں دھوتے ہیں تو جل اٹھتے ہیں
آسماں کتنے سلگتے ہوئے بے آب مہ و مہر کا تھیلا
کہ پڑا ہے سر پر
گردنیں سیدھی نہیں ہو پاتیں
باندھ جاتی ہے نصیبوں کی ہوا سانسوں کو
توڑ جاتی ہے کمر تنہائی
اپنے سینوں سے امڈتی ہوئی تنہائی جہاں پڑتی ہے
شہر کے شہر بدل دیتی ہے ویرانوں میں
شکر ہے ایسے میں کچھ بول نہیں پاتا کوئی سن بھی نہیں پاتا کوئی
ورنہ اس بے سرو سامانی میں
گر پڑیں حوصلے کھلیانوں میں
لوٹ جانے کی کوئی راہ نہیں
لوٹ جانے کو کوئی گھر، در و دیوار کوئی شہر کوئی دشت
یا جنگل بھی نہیں ہے باقی
اپنی مرضی سے پڑے رہنا بھی ناممکن ہے
اے خدا
اے مرے بھگوان
مرے دیوتا
مالک سب کے
روح کی کتنی شکایات سنیں
اور کسے پہنچائیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)