آئنوں پر اثر نہیں ہوتا
عشق کی بات بھی نرالی ہے
درد ہوتا ہے پر نہیں ہوتا
کوئی آ جائے یاد تو دل سے
ایک پل بھی بسر نہیں ہوتا
جانے کن راستوں میں الجھا ہے
جب بھی جاتے ہیں گھر نہیں ہوتا
جینا چاہیں تو جی نہیں سکتے
مرنا چاہیں تو مر نہیں ہوتا
درد اک ایسی راہ ہے جس پر
کوئی بھی ہم سفر نہیں ہوتا
اس طرف بے امان بستے ہیں
آسماں کا گزر نہیں ہوتا
کیسی نیندوں میں پھنس گئے ہیں ہم
جاگتے ہیں تو سر نہیں ہوتا
ہجر کے دکھ سے جو چنی جائیں
ان فصیلوں میں در نہیں ہوتا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)