وہموں کی آوازوں پر
اب بھی دل کی گلیوں میں
خواہش پھرتی رہتی ہے
چاند تو خود دیوانہ ہے
چاند ہمیں کیوں مانے گا
شام نے جب انگڑائی لی
بے چینی بیدار ہوئی
تیرے میرے خواب میں دل
مارا مارا پھرتا ہے
یادوں کے میدانوں میں
لمبے لمبے سائے ہیں
بستی کی خاموشی میں
اور کوئی خاموشی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – عشق نرالا مذہب ہے)