مرے حبیب
آ کہ خود پہ آلہ سکوت کوئی تان لیں
کہ باندھ دیں خود اپنے ہاتھ آپ اپنی پشت پہ
یہ سانس کی لکیر جو بچھی ہوئی ہے
بے یقین ریت پہ
ہواؤں کی جسارتوں کو سونپ دیں
شجر جڑوں میں دھوپ لے کے سو رہے ہیں خاک پر
دیے لہو لپیٹ کے پڑے ہوئے ہیں طاق پر
نصیب نیم خواب کی بجھی ہوئی علامتوں کے زخم بھی
سرک سرک کے خیمہ ملال تک پہنچ گئے
دکھوں سے تر نڈھال حوصلے
مفاہمت اٹی ہوئی
گھری ہوئی شکست میں
دبی ہوئی کسی بدن کی راکھ میں
مرے حبیب
آ کہ سر سراہٹیں خلش خلش کی آہٹیں
کہیں زمین میں اتر کے چیخنے نہ لگ پڑیں
یہ خامشی اسی کی آخری صفت ہے
جان لیں
کہیں خدا ضرور ہے یہ مان لیں
مرے حبیب آ کہ خود پہ آلہ سکوت کوئی تان لیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)