درد گھبرایا کہ یہ کون ہے ایمان فروش

درد گھبرایا کہ یہ کون ہے ایمان فروش
زندگانی کی مصیبت سے کہیں بھاگا ہوا
اتنا بے دید بھی ہوتا ہے کوئی
آرزوؤں سے بھلا ایسے لڑا جاتا ہے
درد گھبرایا کہ یہ کون ہے ایمان فروش
یہ تو بیماری پہ خوش بیٹھا ہے
ظرف کی لذتیں گم ہوں
تو شکایات کی تقسیم بدل جاتی ہے
ظرف کے اپنے معانی کی طرح
درد کے رزق سے منہ موڑ کے جائے گا کہاں
بے سہاروں کی طرح بھاگے گا
صحرا کے کناروں کی طرح
ریت دریا کی طرح دور سے دیتی ہے فریب
ورنہ تشنہ کسی رہرو کے لیے کم تو نہیں جھومتے دریا کی کشش
دل میں بھی لاکھ بھنور پڑتے ہیں دریا کی طرح
اور ڈبو دیتے ہیں جو ہاتھ لگے
درد کے کتنے ہی انداز ہیں مرہم کے مگر
ہنس کے سینے سے لگانا ہی بہت مشکل ہے
درد کی اپنی مسیحائی ہے فطرت کی طرح
چھوٹے چھوٹے سے ارادوں میں بھی گر طاقت ہو
بے سکونی کا بھی ہے غم میں علاج
زخم تو آگ بجھا دیتے ہیں
زخم تو بھوک مٹا دیتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *