دروازی

دروازی
فیصلہ
الجھا ہوا آسمان
بکھرا ہوا سمندر
سکڑی ہوئی دنیا
پھیلا ہوا دکھ
مری ہوئی موت
تم کس لئے زندہ ہو
وہ آواز نہیں تھا
بازگشت تھا
سو لوٹ چکا
اپنے کانٹوں سے راستے ہٹاؤ
ہاں ہاں 
یہی کہا ہے میں نے
یہاں کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے
دور دور تک بچھے کانٹوں پر
اِکّا دُکّا راستے اگ آتے ہیں
راستے ہٹاؤ اور چلنا شروع کر دو
وہ سب تمہارے منتظر ہیں
الجھا ہوا آسمان
بکھرا ہوا سمندر
سُکڑی ہوئی دنیا
اور پھیلا ہوا دکھ
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *