روشنی ملگجے اندھیرے کی اوٹ میں سر سرا رہی ہے، رو بھی رہی ہے
دیواروں پر چہروں کا مدھم احساس جم گیا ہے
بجھے ہوئے چراغوں کے مینار
میناروں پر جمی گرد، راکھ اور کملائی ہوئی آنکھیں
خواہش
روح کی درزوں سے بے سود جھانکتی ہے مخالف حالات میں
سورج آیا ہے
اس کے گلے میں رات کی مالا ڈالو
ہاتھوں میں نابینا آنکھوں کی پتیاں لیکر اس کا خیر مقدم کرو
اس کا منہ چڑاؤ، واپس بھیج دو
میری باتوں پر مت ہنسو
اسقدر مردہ قہقہوں سے تو صرف اندھیرے ہی پھوٹ سکتے ہیں
مت ہنسو
پرندے پہلے ہی بہت سہمے ہوئے ہیں
پہلے ہی ویرانی ان پر کافی ہنستی رہی ہے
تاریک اور زرد ویرانی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)