درُونِ ذات الگ جہاں

درُونِ ذات الگ جہاں
خیالوں ہی خیالوں میں
سورج بانٹتے ہیں
اس کی گلی میں جلتی روشنی کی
نظر اتارتے ہیں
خیالوں ہی خیالوں میں
چاند پہنا آتے ہیں
اماؤس کو تسلی دینے میں کیا حرج ہے
جگنوؤں کی ہمت بندھ جائے گی
خیالوں ہی خیالوں میں
محل بناتے ہیں
ایک بہت بڑا اور شاندار محل
اور اس کو بلاتے ہیں
اور اس کا استقبال کرتے ہیں
اس کے شایانِ شان
یا
اسے ابھی اسی وقت مل آتے ہیں
یہ سب کچھ کرنے میں
آخر حرج ہی کیا ہے
خیالوں ہی خیالوں میں
کہتے ہیں
خدا نیتیں دیکھتا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *