اس سے زیادہ وہ ستم ڈھائے کہاں
درد کے خوف نے در بند کیے
اب تری یاد ہمیں آئے کہاں
اتنی ویرانی میں تنہائی سمیت
لے چلے ہیں یہ مجھے سائے کہاں
اس سے آگے تو کوئی رستہ نہیں
شہر کے لوگ مجھے لائے کہاں
اب جگہ باقی نہیں ایسی کوئی
کوئی شئے سینے میں چبھ جائے کہاں
عین خواہش کی کلائی میں مری
پھول بھی دیکھو کہ کملائے کہاں
دشمنوں سے بھی پرے دور کہیں
تو نے رکھا ہے مجھے ہائے کہاں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)