دونوں وقت
رات کو ذرا ڈھلنے دیا ہوتا
ایسے میں یاد کیوں آئے ہو
آغاز شب جانے کتنا طویل ہو جائے
جانے کتنی راتوں پر پھیلتا چلا جائے
یاد کا کیا پتہ دیوانی ہی تو ہوتی ہے
رنگ ذرا جمنے دیا ہوا
کچے رنگوں سے اڑانا اڑانا کھیلتے ہو
خود کو بھی رنگ دیا ہے
اور مجھے بھی
اب نہا مت لینا
راستے ذرا صاف ہونے دیے ہوتے
آہنی پیروں والا ہجوم چھٹنے دیا ہوتا
نکل ہی پڑے ہو تو فٹ پاتھوں سے بچ کے کیا چلنا
امتحان ہی سہی
ممکن ہے تم خود کسی کو ہجوم لگتے ہو
آہنی پیروں والا ہجوم
فرحت عباس شاہ