خوں رلائے گا دلاسہ غم کا
دل کبھی ٹھیک سے دھڑکا ہی نہیں
بس یہی کچھ ہے خلاصہ غم کا
اس بھری دنیا میں اک تو تم ہو
دوسرا میں ہوں شناسا غم کا
پیاس بجھتی ہی نہیں ہے دل کی
کیا سمندر ہے پیاسا غم کا
جیسے پاتال لرز اٹھتا ہو
تم کبھی دیکھو تو رعشہ غم کا
لوگ دل کہتے ہیں اسکو فرحت
میں اسے کہتا ہوں لاشہ غم کا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)