رات جس خواب کے سائے تلے سوئے تھے تمہارا تو نہ تھا

رات جس خواب کے سائے تلے سوئے تھے تمہارا تو نہ تھا
غم کی مہمیز ہمیں خواب کے پندار میں لے جاتی ہوئی کہتی ہے
تھوڑا سستا ہی لیا جائے تو بہتر ہے مسافر کے لیے
خواب بھی دینے لگے ہم کو فریب
دل ہی مضبوط نہ ہو اپنی شکایت میں تو اوروں کا گلہ کیا کرنا
دور بیٹھا ہوا چاہے کوئی بے چین کرے
آرزو اپنا سفر مانگتی ہے
بے ردائی بھی نہیں اچھی کہ سب لوگ کہیں
چھوڑو بے نام و نسب درد کو چھوڑو چھوڑو
ہم تمہیں خواب میں مل آتے تو خوش ہی رہتے
اور یہ نیندیں بھی یوں اپنا اڑاتیں نہ مذاق
سو طرح کے کسی اندوہ سے بچ ہی جاتے
اپنی برباد محبت کو گریبان ہی پہناتے رہیں گے کب تک
اس قدر چاک گریبان اسیری والے
روز دل روزن زندان میں کرلاتا ہے
روز ہم صورت احوال سے ڈر جاتے ہیں
روز گھبرا کے پلٹ آتے ہیں بستی سے خیال
روز ویرانہ تعاقب میں نکل پڑتا ہے
جاگتے جاگتے آجاتی ہے آنکھوں میں خراش
خون رستا نہیں جم جاتا ہے
اور سلگ اٹھتا ہے بینائی میں بے نور چراغ
دل کی بے زاری کا بے نور چراغ
اور شکستہ کیے رکھتا ہے ملال
رات جس خواب کے سائے تلے سوئے تھے تمہارا تو نہ تھا
رات جس خواب میں ہم پھوٹ کے روئے تھے تمہارا تو نہ تھا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *