رات جو کہیں کھو گئی ہے

رات جو کہیں کھو گئی ہے
تمہارا غم میرے آنسوؤں سے بہت آگے گزر گیا ہے
اب ایسی بھی کیا بات
کبھی کبھی بانسری کی اداس تان میں سنائی دینا
اور سیدھا دل کے پرانے گھاؤ پر آ لگنا
یہ کچھ ایسا کافی بھی نہیں ہے
میں نے تو دکھ کی قسمیں اٹھانا بھی چھوڑ دیا ہے
اور آنسوؤں کی بھی
اور موت کی بھی
مجھے تو پیچھے مڑ کے دیکھنے والا بھی کوئی نہیں
تنہائی کا سینہ پیٹتے جیسے صدیاں بیت گئی ہوں
اور بیت رہی ہوں
کسے بتاؤں
نظم پوری کرنا کتنا مشکل ہو گیا ہے
اور رات کہیں کھو گئی ہے
جو شاعر تھی
اور مجھ سے باتیں کرتی تھی
اور میں لکھتا چلا جاتا تھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *