رات ہم اتنے پریشان رہے جتنا کوئی جنگل ہو کسی بستی کا
اپنی خاموشی سے خود کانپتا ہو
اپنی ویرانی پہ خود روتا ہو
اپنی تنہائی پہ خود ہنستا ہو
اپنی محرومی پہ خود کڑھتا ہو
اپنی مایوسی پہ خود جلتا ہو
اپنی بے چینی پہ چپ چاپ سلگتا ہو بہت
رات ہم اتنے پریشان رہے
جتنا کوئی جنگل ہو کسی بستی کا
فرحت عباس شاہ