سانپ کی سی ملائمت بھی ہے
جو بظاہر تھا ہم وہی سمجھے
اور وہ دل میں اور کوئی تھا
راستوں کی عجیب عادت ہے
میرے پیروں سے آ لپٹتے ہیں
ایک مدت سے ہم نے خود اپنی
آستینیں ادھیڑ ڈالی ہیں
یہ تو فطرت کی کوئی مستی ہے
ساز پر کون مست ہوتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – بارشوں کے موسم میں)