زباں ہے تو نظر کوئی نہیں ہے

زباں ہے تو نظر کوئی نہیں ہے
اندھیرے ہیں سحر کوئی نہیں ہے
محبت میں فقط صحرا ہیں جاناں
محبت میں شجر کوئی نہیں ہے
خموشی چیختی جاتی ہے لیکن
کسی پر بھی اثر کوئی نہیں ہے
بھری بستی میں تنہا کر گئے ہو
کہ جیسے یاں خطر کوئی نہیں ہے
اگر انساں کے بارے پوچھتے ہو
بہت سے ہیں مگر کوئی نہیں ہے
میں اپنے آپ ہی سے ڈر رہا ہوں
مجھے تیرا تو ڈر کوئی نہیں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *