سب اپنی ذات کے کرب و بلا کی قید میں ہیں

سب اپنی ذات کے کرب و بلا کی قید میں ہیں
اور ایک ہم کہ جو اب تک وفا کی قید میں ہیں
کوئی خبر ہے سفر کی نہ منزلوں کا پتہ
ہمیں تو عمر ہوئی رہنما کی قید میں ہیں
تھکے تو نظریں چھڑا لائے آسمانوں سے
مگر وہ لب کہ جو اب تک دعا کی قید میں ہیں
نظر ہوئی ھے بمشکل سکوت سے مانوس
سماعتیں تو ابھی تک صدا کی قید میں ہیں
سراب ہیں سبھی آزادیاں فضاؤں کی
کہیں پرندے کہیں پَر ہوا کی قید میں ہیں
جب اپنے جیسی ہی مخلوق کے شکنجے سے
ہوئے رہا تو یہ دیکھا خدا کی قید میں ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *