سراب

سراب
نصاب
بے در زندانوں کی قسم
دل کی گھبراہٹ اپنا مفہوم کھوتی جا رہی ہے
کسی مجنون کی بے معنی بڑبڑاہٹ کی طرح
از خود اپنے پاگل پن سے آزاد ہونا کس قدر کٹھن بلکہ ناممکن ہے
سڑکوں پر بھاگتے پھرتے دیوانے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں 
میری وحشت میں قید
میری اپنی بے بسی مجھے آنکھیں دکھاتی ہے
اور بس مجھے ہی دِکھا سکتی ہے
چلو کوئی گھر بنائیں
خوابوں خیالوں خواہشوں اور آرزوؤں کے میٹریل سے بنا ہوا گھر
کھلا اور ہوا دار
ایک ایک کمرے کی ہر دیوار میں دو دو دریچے بنوائیں
کبھی نہ بند ہونے والے دریچے
باہر کی چار دیواری میں صرف ایک دروازہ ہو
مضبوط اور محفوظ
اور اس میں ایسا تالا لگائیں جس کی دو چابیاں ہوں
ایک تمہارے پاس اور ایک میرے پاس
اور پھر اس خدشے میں قید ہو جائیں
جانے اب کون چابی گُم کرتا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *