سفر کا بار سفر کی اساس پر رکھا

سفر کا بار سفر کی اساس پر رکھا
کہ ہم نے دل ترے دریائے پیاس پر رکھا
الگ ہوا جو کبھی دکھ تری جدائی کا
اٹھا کے پھر سے اسے ہم نے ماس پر رکھا
جو تاج بھیجا تھا ہم نے اسے محبت کا
ہمیں ملا کسی صحرا کی گھاس پر رکھا
کبھی نہ ہٹنے دیا مجھ کو اپنے رستے سے
میں خود اداس تھا مجھ کو اداس پر رکھا
ہمیشہ دھوکہ دیا عین وقت پر ہم کو
بہت بھروسہ اگرچہ حواس پر رکھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *