نہ مل سکا تو دُعا ہو گیا کوئی نہ کوئی
میں کس کو پوچھنے نکلوں کسے تلاش کروں
قدم قدم پہ جُدا ہو گیا کوئی نہ کوئی
میں سب میں ایک سا تقسیم تھا مگر پھر بھی
کسی بہانے خفا ہو گیا کوئی نہ کوئی
امیرِ شہر نے ایسی رعائتیں بانٹیں
گلی گلی میں خدا ہو گیا کوئی نہ کوئی
میں جن کے واسطے نکلا تھا کربلا کے لیے
غریب عہد وفا ہوگیا کوئی نہ کوئی
دیا بجھانے سے پہلے لبِ فرات سے دُور
نظر بچا کے ہوا ہو گیا کوئی نہ کوئی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)