شب اُترتی ہے تو یادیں بھی اتر آتی ہیں

شب اُترتی ہے تو یادیں بھی اتر آتی ہیں
جس طرح چڑیاں کہیں دور سے گھر آتی ہیں
دن گزرتا ہے تو ہو جاتے ہیں لب خشک مرے
شام ڈھلتی ہے تو آنکھیں مری بھر آتی ہیں
خواہشیں نیزے لیے خواب کے دروازوں سے
میرے سینے کے بیابان میں در آتی ہیں
تو نہیں ہے تو ترے بارے میں سوچیں میری
روتے روتے ہوئے بستی سے گزر آتی ہیں
روز لے جاتی ہیں ہوائیں اک خواب اور پھر
ایک ہی شخص کی دہلیز پہ دھر آتی ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *