شب بھر بیٹھ کے ایک عجیب کتاب سناتے رہتے ہیں

شب بھر بیٹھ کے ایک عجیب کتاب سناتے رہتے ہیں
عورت سنتی ہے اور مرد سراب سناتے رہتے ہیں
موسم تو ہاتھوں میں کاغذ پیلے ہو جانے کا ہے
البتہ اک ہری کہانی خواب سناتے رہتے ہیں
ایک تھکن روحوں کے اندر شور مچاتی رہتی ہے
ایک تھکن خاموشی سے اعصاب سناتے رہتے ہیں
کچھ آوازیں دلدل والے بَن سے آتی رہتی ہیں
کچھ آوازیں کبھی کبھی گرداب سناتے رہتے ہیں
ہم جیسے با ہمت بڑھ کے گلے لگا لیتے ہیں دکھ
تم جیسے کم ہمت لوگ عذاب سناتے رہتے ہیں
اچھی تعبیروں کے شوق میں خواب سناتے رہتے ہیں
فارغ بیٹھے اک متروک نصاب سناتے رہتے ہیں
آدھوں کی تو بات ہی چھوڑو البتہ یہ آدھے لوگ
خالی تھال دکھاتے ہیں مہتاب سناتے رہتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *