شکوہ مسافر ہے

شکوہ مسافر ہے
اسے مجھ سے یہ شکوہ تھا
سفر کیوں مختصر ہے
راستے کیونکر سمٹ جاتے ہیں لمحوں میں
تمہارے ساتھ چلنے میں یہ اک نقصان سا کیا ہے
کہ جب نکلو پلک جھپکے میں صدیاں بیت جاتی ہیں
غروب مہر تو جیسے صبح صادق کے کاندھے سے
لگا بیٹھا ہے ظالم سا
نگوڑی شام ڈھلنے کے لیے تیار بیٹھی ہے
کہ ہم نے اک ذرا باہر نکلنے کا
ارادہ ایک دوجے کو بتایا اور یہ موئی شام یوں لپکی
کہ جیسے منتظر تھی بس ہماری ہی
اسے مجھ سے یہ شکوہ تھا
سفر کیوں مختصر ہے
راستے کیونکر سمٹ جاتے ہیں لمحوں میں
میں اس کے بعد اب
لمحوں کی جن بھاری چٹانوں کے تلے ٹھہرا
خود اپنی چاپ کی زنجیر میں جکڑا
طویل اور ان گنت رستوں کے چنگل میں گھسٹتا
ہجر کے جس رائیگاں ٹھہراؤ سے الجھا ہوا
دو چار قدموں میں بھٹکتا پھر رہا ہوں
کس طرح اس کو بتاؤں
اور کہاں سے ڈھونڈ لاؤں
اور اسے کیسے کہوں
شکوہ مسافر ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *