جس سورج کو ہماری پیشانی پر چمکنا تھا
ہماری آنکھوں کے عین قریب جل رہا ہے
اور جس چاند کو ہماری مانگ میں دمکنا تھا
ہماری پیشانیوں میں بجھ کر رہ گیا ہے
اور جن چراغوں کو ہماری محفلوں اور ہمارے راستوں میں
روشن رہنا تھا
ہمارے طاقچوں ہی میں پڑے رہ گئے ہیں
اور جن شمعوں کو
ہماری منڈیروں پر جگمگاہٹوں کی قطاریں بنانا تمھیں
جلائی ہی نہیں گئیں
اور جن ستاروں کو
اور ستاروں کے جھرمٹوں کو
اور ستاروں کے جھرمٹوں والی کہکشاؤں کو
ہمارے آسمانوں پر روشنی کی سڑکیں بنانا تھیں
نا وقت کے بادل سے ڈھلی ہوئی ہیں
اور ہمارے جن دلوں نے
زمانوں کو نور سے بھر دینا تھا
زندہ ہی نہیں رہے
تاریکی اور صرف تاریکی
تیرگی اور تیرگی
اندھیرے اور صرف اندھیرے میں
رہنے والے ہم لوگ
اپنی اپنی تاریک کوششوں
اور تیرہ ارادوں
اور اندھیرے خوابوں میں قید ہیں
یا پھر اندھی قید میں آئے ہوئے خواب
صرف اور صرف خواب
فرحت عباس شاہ