ہم سمجھتے ہی نہ تھے باتوں کو
ان کو عادت ہے مری آنکھوں کی
کون سمجھائے گا برساتوں کو
کتنے معصوم ہیں وہ لوگ کہ جو
کچھ سمجھتے ہی نہیں راتوں کو
وہ مجھے دام میں لانے کے لئے
کام میں لایا مداراتوں کو
ہم کہاں مانتے ہیں ذاتوں کو
پاس رکھو اپنی سبھی ساداتوں کو
آستینوں پہ توجہ دے کر
تاڑ لیتا ہوں کئی گھاتوں کو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)