صرف دینے والے کی لاتعلقی پر منحصر ہے
اور منصف کے لیے کسی فعل کے غیر اہم ہونے پر
اور وطن
اُس طرح کا ایک ’’تھریٹ‘‘ ہے
جس طرح کا خدا
انسان بنیادی طور پر صرف ایک بنیادی سٹرکچر ہے
جو اندر سے کمزور
اور باہر سے بس ایک رنگ برنگا غلاف ہے
اور تصادم کے بغیر ایک پرزہ ہے
یا کوئی مجبور اور محصور کردار
لیکن تصادم کا آزاد ہونا بھی شرط ہے
کسی ردِ عمل میں آ کر اختیار کیا گیا تصادم بذاتِ خود
بے اختیاری کی گواہی ہے
اور صرف ذاتی آزادی ست محرومی کے خلاف
لڑی جانے والی جنگ
جبر کی ایک دوسری شکل ہے
اپنی ذات اور خودی اور موجودہ نفسیاتی صورتحال
کی گود میں بیٹھ کر
کسی دوسرے کو دیکھنا
ایک علیحدہ مجبوری ہے
ان سب مجبوریوں اور زبردستیوں سے نکلنا ہی
مکمل ہونا ہے
اور یہ بہت مشکل ہے
شاید اسی لئے ہم سب کہیں نہ کہیں سے
ادھورے ہیں
مجھے جس کہانی میں اتارا گیا ہے
ادھورے کرداروں کی کہانی ہے
ایک مکمل کہانی
فرحت عباس شاہ