کتنی ویران فضاؤں میں رہے
کتنے گھر ڈوب گئے بارش میں
لوگ بادل کی اداؤں میں رہے
ایسا لگتا تھا کہ تو بولتا ہے
ہم سدا تیری صداؤں میں رہے
تم تو ہر جرم سے آزاد ہوئے
عمر بھر ہم تو سزاؤں میں رہے
ہم ترے غم میں رہے ہیں ایسے
جس طرح پنچھی گھٹاؤں میں رہے
لوگ سمجھے کہ یہیں رہتے ہیں
اور ہم دور خلاؤں میں رہے
خود میں خوشبوؤں کو زندہ رکھا
ہم تو شہروں میں بھی گاؤں میں رہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)