کاٹتا کتنے ہی لشکر میں اکیلا لیکن

کاٹتا کتنے ہی لشکر میں اکیلا لیکن
تجھ کو اک لمحہ بھی محصور نہ رہنے دیتا
تجھ کو در پیش ہیں مجبوریاں
تو زخمی ہے
بے بسی ہے ترے چہرے سے عیاں کہ تو نے
کبھی دیکھا ہی نہیں
ان ہوسناک ابلتے ہوئے چہروں کے سوا
ان خطا کار نگاہوں کے سوا
میں بھی مجبور ہوں
مجھ کو بھی میری سسکتی ہوئی مجبور انا
ایک دن تیرے تصور سے جدا کر دے گی
دکھ تو یہ ہے
تری بانہیں کبھی اٹھی ہی نہیں میری طرف
ورنہ اس بے بس و مجبور سے شاعر کا لہو
تیرے ہاتھوں کی حنا دل کا اجالا بنتا
اور میں تیری ہر اک عام سی خواہش کے لیے
روح تک اپنی جلا دیتا مگر
تجھ کو مجبور نہ رہنے دیتا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *