کبھی تو بھی تھوڑا سا وقت دے

کبھی تو بھی تھوڑا سا وقت دے
مری الجھنوں کو شمار کر
مری رائیگانی کی خیر ہے
ترا کاروبار تو چل پڑا
ترے سوچ سوچ کے خال و خد
مری روح دکھتی ہے رات بھر
وہ اداسیاں ہیں پڑوس میں
کہ ہوا بھی آئی ہے مضمحل
مجھے مت دلا یہ یقیں وقیں
تری بات بات میں چھید ہیں
ترے بعد جتنی تھکن ہوئی
میں نے تیرے کھاتے میں ڈال دی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – بارشوں کے موسم میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *