کبھی یوں

کبھی یوں کریں

سنو!
کبھی یوں کریں
کہ کہیں مل بیٹھ کے کوئی اداس اور سوگوار شام دہرائیں
اور بیتنے نہ دیں
خود کو بھولی بسری یادوں کے سپرد کر کے واپس لوٹنا بھول جائیں
یا جنگل میں جا کے خود کو پرندوں کی قید میں دے آئیں
کسی تن تنہا بادل کو بلائیں
اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھر رکھ لیں
اور گھر کے سارے دریچے سارے راستے بند کر دیں
تا کہ کوئی اسے ملنے نہ آسکے
اپنی اپنی زخمی آرزوؤں کو زخمی ہی رہنے دیں
اور ایک دوسرے کی خواب نگریوں کو روانہ کر کے
راستہ نہ بھولنے کی دعا مانگیں
کسی روز اپنے اپنے پیاروں سے بے سبب ناراض ہو جائیں
اور جہاں جہاں جو جو وعدہ لکھ رکھا ہے مٹا ڈالیں
اور کبھی یوں کریں
کہ اپنے چہروں، اپنی آنکھوں اور ہاتھوں کو خود ہی چھُو کے دیکھیں
اور ان کی اپنی جگہ موجودگی کا یقین کریں
سنو! کیا خیال ہے
کبھی یوں نہ کریں کہ حوصلوں کے سارے بند
اور تحمل کے سارے ستون توڑ ڈالیں اور ہواؤں کے سامنے ان کٹھور
ہواؤں کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔ انہیں روک کے
ان کا گریبان تھامیں
چیخ چیخ کے انہیں برا بھلا کہیں
ان کا دامن تار تار کر ڈالیں
اور ان سے اپنا اپنا جرم پوچھیں

فرحت عباس شاہ

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *