کسی سرمہ گر کا ظہور تھا کسی طور پر

کسی سرمہ گر کا ظہور تھا کسی طور پر
اگر آپ آتے تو ہم بھی آنے کا سوچتے
کئی ساربانوں کے قافلے تھے گھرے ہوئے
وہاں دشت تھا وہاں بادشاہی تھی ریت کی
رخ ماہتاب پہ بادلوں کا نقاب تھا
ہمیں اس میں بھی تری آب و تاب دکھائی دی
ترا ہجر نیند سے مل کے کرتا ہے سازشیں
یونہی سوتے جاگتے بیت جائے گی زندگی
مرا احترام نہیں تو کس لیے ضبط غم
مجھے بام و در سے لپیٹ جاتا ہے رات دن
اسے جاگتے میں بھی نیند رہتی تھی عمر بھر
کوئی موت اس کو لیے ہوئے تھی لپیٹ میں
نہیں اتنا شور کہ ہم کو کچھ نہ سنائی دے
نہیں اتنی چپ کہ سماعتیں ہی بلک پڑیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *