نجانے کون آیا ہے مرے ویران کمرے میں
کوئی نا کوئی ہوتی ہے شناسائی رہائش کی
وگرنہ کون رہتا ہے کسی انجان کمرے میں
مرے کمرے میں کوئی بھی نہیں پھر بھی یہ لگتا ہے
میں تنہا چھوڑ آیا ہوں کوئی مہمان کمرے میں
تری آواز سے باہر نکلنے کا ہر اک رستہ
کھٹک سے آن گرتا ہے مرے بے جان کمرے میں
تمہارے بعد میں کوئی خوشی لایا نہیں اس میں
مرا تنہائی سے ٹوٹا نہیں پیمان کمرے میں
بہت مشکل سے تھوڑی سی جگہ ملتی ہے سونے کو
بھرا رہتا ہے اکثر ہی ترا سامان کمرے میں
وہ جس دالان میں ہم نے کئی راتیں گزاری تھیں
نجانے کس نے لا پھینکا ہے وہ دالان کمرے میں
یہ کمرہ دیکھتا جاتا ہے مجھ کو روئے جاتا ہے
اداسی بھیگتی جاتی ہے اس ویران کمرے میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)