کہاں ہو تم

کہاں ہو تم
کہاں ہو تم
تجھے ملنے، تجھے پانے کی خواہش میں
نہ جانے ہم نے اپنی زندگی کے کیسے کیسے دن بتائے ہیں
کسی بازار میں جب تم سے کوئی ملتی جلتی شکل پل بھر کو
نظر آتی
تو پہروں دل پہ آویزاں تری تصویر
ہم سے بات کرتی۔ روٹھتی اور روٹھتی ہی روٹھتی جاتی
مگر جب مان جاتی تو مناتی بھی
اسی دورانیے میں دن گزر جاتا
کبھی جب کوئی مشترکہ شناسا ہم سے ملتا
تو اسے ہم روک لیتے اور تمہارے بن بیابانی کا سارا حال
اس سے کہہ سناتے
اور بظاہر پُر سکوں چہرہ، صدا ٹھہری ہوئی لیکن
کبھی آنکھیں ذرا سی بھیگ بھی جاتیں
پھر اس کے بعد ہم سڑکوں پہ آوارہ پھرا کرتے
انہیں بھیگی ہوئی ویرانیوں میں دن گزر جاتا
کہاں ہو تم
تجھے چھونے کی خواہش میں
ہم اپنے دل سے اٹھتا، خون سے ہوتا ہوا آنکھوں میں
آکر ٹھیر جاتا درد
خود اپنے ہی سینے میں چبھوتے پھر رہے ہیں
اور ہماری انگلیوں کی تشنہ لب پوریں ہمارے آنسوؤں کو
چومتی پھرتی ہیں برسوں سے
کہاں ہو تم
تمہارے بن کسی دریا کنارے پر کبھی جب شام ڈھلتی ہے
تو تاریکی سدا سیدھی ہمارے دل کے آنگن میں اترتی ہے
ہمیں خاموش رکھنے کے لئے
ٹھنڈی ہوا انجان بن بن کے گزرتی ہے
تمہارے بن ہماری رات پتھر بن کے آنکھوں پر دھری
رہتی ہے صدیوں تک
کہاں ہو تم
کہاں ہو تم
تمہارے بن ہماری ذات پتھر بن کے آنکھوں پر دھری ہے
اور ہمیں اس کھوہ سے باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں ملتا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *