راستہ لے گیا اور سارا سفر چھوڑ گیا
رتجگے، زخم، چبھن درد جلن، بے چینی
جو نظر آیا ترا ہجر ادھر چھوڑ گیا
اب میں دھندلائی ہوئی آنکھیں لئے پھرتا ہوں
کوئی کملائے ہوئے، خواب کا ڈر چھوڑ گیا
ایک پچھتاوے کا سایا مرے لوٹ آنے پر
کہہ نہیں پاتا کہ دیوانہ تو گھر چھوڑ گیا
اس طرح ادھ کھلا دروازہ پڑا ہے دل کا
جیسے میت کوئی انجانے میں در چھوڑ گیا
میں کسی درد کے صحرا میں کھڑا تھا تنہا
میں نے دیکھا کہ مجھے سارا نگر چھوڑ گیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)