کون بے نور دیاروں سے ہمیں جھانکتا ہے
کیا یونہی گھومتے مر جائیں گے ہم
کیا تخیل کے پری زاد کو بس چومتے، آنکھوں سے لگاتے ہوئے
گھر جائیں گے ہم
کیا سدا موت سے ڈر جائیں گے ہم
موت مدت سے تعاقب میں چلی آتی ہے
ایک اک کر کے ستارے کہیں جا گرتے ہیں
ٹوٹ کر گرتے ہیں، کمزور کناروں کی طرح
ہم جو سورج کو بھگا لائے ہیں اور سوچتے ہیں
ہم جو سوچوں کو بھگا لائے ہیں اور جلتے ہیں
درد کے جتنے سہارے ہمیں حاصل ہیں
پھر بھی ہم کانپتے جاتے ہیں درختوں کی طرح
ہم لرزتے ہیں مگر ساکت و صامت ہے خلا
بس خلا ٹھہرا ہوا ہے ورنہ
باقی ہر شے کسی حرکت کے تحرک سے بندھی ہے شاید
اور کوئی ڈور ہلاتا ہے کبھی زور سے لیکن کبھی آہستہ سے
اور ہمیں دیکھتا رہتا ہے بہت غور سے
اور جھانکتا ہے
فرحت عباس شاہ