جو مجھے گھسیٹتا پھر رہا ہے زمین پر
میں تو زندگی کی ریاضتوں کا امین ہوں
یہ جو بستیوں کے اصول ہیں مری دھول ہیں
تپش خیال کا جبر ہے مرے ذہن پر
ہیں اسی لیے مری بے قراریاں مستقل
میں نے اک ذرا سا فرار سوچا تو ایک دم
تری آرزو مرے جسم و جاں پہ جھپٹ پڑی
ابھی دل مسلنے سے کیا ہے دل تو اجڑ گیا
کف ہجر ملنے سے کیا ہے وہ تو بچھڑ گیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)