وہ لوگ جو ہواؤں میں آثار بو گئے
اپنی خبر نہیں نہ زمانے کا علم ہے
خیمے ہوں، بستیاں ہوں کہ گنجان شہر ہوں
جنگل ہوں، دشت ہوں کہ کوئی اور دہر ہوں
سب زاویے ہمارے ترے نام ہو گئے
اور خود ہم اپنے آپ میں ناکام ہو گئے
ہے اس قدر عجیب مسافت کہ کچھ نہ پوچھ
دن راستوں میں شام بدن کی تھکان میں
جیسے کوئی غریب پرائے مکان میں
رات آگئی تو لگ کے ستاروں سے سو گئے
جس دن سے دل میں پیار کے اسرار بو گئے
خواہش لہو میں آنکھ میں انکار بو گئے
بن بن کے ایک پل میں کھنڈر ہو رہے ہیں شہر
دل میں کچھ ایسے تم در و دیوار بو گئے
فرحت عباس شاہ