سرخ کناروں والے آنسو
دل کے دکھے ہوئے حصہ میں جا آباد ہوئے ہیں
کتنی کھوئی ہوئی شامیں تھیں
کتنی روئی ہوئی راتیں تھیں ان کے پیچھے
رخساروں پر ہاتھ دھرے دکھ، چور ستوں میں بیٹھے بیٹھے اونگھ گئے تھے
سرخ کناروں والے آنسو بھی کب سونے دیتے ہیں سونے والوں کو
آگ لگی ہے
آنکھوں کی گلیوں سے ہوتی
دل کے دکھے ہوئے حصے تک
آگ لگی ہے
دھیمی دھیمی آوازوں میں
کرلانے کے موسم جیسے بیت گئے ہوں
اور بلند آوازوں پر بھی گونگے، بہرے سائے ہنسنے لگتے ہیں
بستی بدلیں
یا پھر کوئی اور
نگر آباد کریں
جس شفقت کی گود میں اپنا سر رکھ رکھ کر
دھاڑیں مار کے روئیں اور فریاد کریں
ہم تو کھل کے رو لینے پر شرماتے ہیں
سہمی ہوئی طبیعت والے لوگوں کی قسمت میں شاید
گھٹی ہوئی ہچکی ہی سب کچھ ہوتا ہے
گھٹی ہوئی ہچکی اور شاید سرخ کنارے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)