خوف بے دید ہوا
روز دہلیز پہ آ بیٹھتا ہے
دل کے سہمے ہوئے حصے میں کوئی شئے سی بہت دور تلک رینگتی ہے
سرسراتی ہے کوئی چیخ تہہِ سانس کہیں
چھت پہ بیٹھی ہوئی تاریکی اُتر آتی ہے
اور روتی ہے گلے لگ لگ کے
چپ کی یخ بستہ اذیت کے تلے
ہونٹ گھبرا کے تڑپ اٹھتے ہیں
جسم پہ اوس نما بارشیں اُگ آتی ہیں
نبض کے ساتھ دھڑک اٹھتی ہیں شریانیں بھی
اب یہ ہم پہ ہے
کہ ہم دیکھیں بھی پہچانیں بھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)