لگ رہا ہے شہر کے آثار سے

لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے
جن کو عادت ہو گئی صحراؤں کی
مطمئن ہوتے نہیں گھر بار سے
یہ تو سارا بازوؤں کا کھیل ہے
شہ رگیں کٹتی نہیں تلوار سے
آ گرے ہیں عین ویرانی کے بیچ
کچھ پرندے کچھ شجر بیمار سے
راستوں پہ گھاس اُگ آئی اگر
کون لوٹے گا سمندر پار سے
پھٹ نہ جائے دل کہیں اصرار سے
اس لیے گزرے نہیں بازار سے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *