لوح لا محفوظ

لوح لا محفوظ
صاف تختی کا بھرم بھی رائیگاں
صاف تختی اور خلا کا فرق مٹنے سے
فضا کچھ اور بھی دھندلا گئی ہے
سو گزر گاہیں فصیلیں، بحر، صحرا
سو عجائب عمر بھر لکھتے رہے ہم سینہ احساس پر
اور پھر بھی یک طرفہ خلا باقی رہا
اب کہاں شفاف پن اجلا نمائی روح کی
دھول، دھبے گرد، چھینٹے، میل، گدلاپن، لکیریں سب کے سب
اب تو حصہ بن چکے ہیں
صورتیں، نقشے، تصاویر و صنم سب اٹ چکے ہیں
پھٹ چکا ہے اب تو ملبوس حسیں
کٹ چکے ہیں رابطے سب اور زمانی چوکیوں کے درمیاں
واضح نہیں شکل گذر گاہی کوئی
بٹ چکا ہے دھند میں سب راستہ
کون آئے اور بصارت سے اتارے جھلیاں
ہم خلا ماروں کا پہلا دکھ خلا
ہم خلا ماروں کا کرب آخری بھی خود خلا
تختیاں اجلی مگر پھر بھی خلا کا گھاؤ سینے کی ہزاروں کائناتوں کے لیے
موجود ہے
لاکھ کوشش بھی یہاں بے سود ہے
کیا کریں چارہ گری کے زخم کا
ذات کے سارے حوالے اور غبار گردش دوراں
حدود وقت میں
اور
آخری دھبہ سیاہی کا کہیں ہے
قربتوں کی قربتوں کے آس پاس
ہم کہ ان شہروں میں صحرا بُرد ہیں
جن کے دریاؤں کے سنگم کہکشاؤں کے ملاپ
اور گلی کوچوں کی رونق بھی فقط بس
داستاں در داستاں ہونٹوں پہ ہے
کیا ہماری داستانوں کا تقدس بھی ہمارے داغ دھبے دھو نہیں سکتا
ہماری بارشیں، طوفان اور سیلاب اور کرب و بلا سب
مل کے بھی سیاہی مٹا سکتے نہیں
پھر خلا شفاف تختی پھر خلا
صاف تختی کا بھرم بھی رائیگاں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *