مجھے برتنوں میں سجا گیا
مجھے لا کے قریہِ لا مکان سے
برتنوں میں سجا گیا
تِرا معجزہ
مری سلطنت کی فنا سے ہے
مِرا معجزہ
تجھے ماننے کی بقا سے ہے
مجھے دے کے آتشِ کم نما
کسی آگ زار بَلا نما سے ڈرا گیا
اسی خوف سے میں ہلا نہیں
اسی ڈر سے زخم لبِ دعا بھی سلا نہیں
میں ملا نہیں
اسی وہم میں کسی آرزوئے تمام سے
ترے نام سے
ابھی تک میں اپنے ہی گام گام پہ کچھ نہیں
میں نے تیرے بارے میں خود سے کچھ بھی نہیں کہا
کہ بے اعتباری ِ خام سے
جو بھرم رہا سہا ہے بھی وہ بھی نہیں رہے گا کلام سے
مجھے شام ہی سے ڈرا رہی ہے روش روش
میں جہاں چلا
میں جہاں کہیں بھی چلا
وہ رہ سے ہٹا گیا
مجھے نقش کر کے مٹا گیا
میں اسے مناتا رہا ہمیشہ خلوص سے
وہ ہمیشہ مجھ سے خفا گیا
مجھے لا کے قریہِ لا مکان سے برتنوں میں سجا گیا
مجھے برتنوں میں سجا گیا
مجھے خود مجھی سے چھپا گیا
فرحت عباس شاہ