محبت پھر ہنس پڑی

محبت پھر ہنس پڑی
وہ رویا نہیں تھا
لیکن زندہ تھا
کچھ زیادہ ہی زندہ تھا
زندہ لوگوں میں بھی بس ایک وہ زندہ لگتا تھا
اور لگتا ہے
زندہ احساس،
زندہ جذبہ اور زندہ دکھ
میں نے دیکھا میں اکیلا تھا
اور ہمیشہ رہا
محبت پھر ہنس پڑی
اور تنہائی حیران رہ گئی
محبت ہنس پڑی
اور مزید اکیلا کر گئی
محبت؛ میرے شعور کی پہلی کرن
کاٹ دار، میٹھی اور نوکیلی
محبت؛ دل، جان ، روح، زندگی
محبت؛ کمرہ، گھر، شہر، کائنات
محبت؛ خدا
مجھے اور زیادہ تنہا کر گئی
محبت، خون میں گھُل گھُل جاتی
گہرائیوں میں اُتر اُتر پڑتی
تنہائی؛ ہر طرف، ہر سُو
کھلونوں میں بھی، رنگوں میں بھی
میں اس کی طرف بھاگا،
بازو پھیلائے اور سینہ کشادہ کئے،
بھاگا، دیوانہ وار بھاگا اور خلا سے جا ٹکرایا
اور ٹکرا کے گر پڑا
محبت پھر ہنس پڑی
یہ جان کر کہ کوئی میرے لیے گرا ہے
اُف کیسی خوشی تھی
اس بے نیاز کے چہرے پر
منعکس ہوئی اور میرے چہرے پر پڑی
میں بھی خوش ہو گیا
اور خوش ہو کے آنسوؤں میں ڈوبتا چلا گیا
پھر ایک ہاتھ بڑھا،
میرے ہاتھ کی طرف
اور رک گیا،
مجھے نکالا نہیں،
بس چھو کے واپس مڑ گیا
جیسے اس کا بس اتنا ہی کام ہو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *