ذرا گہرا ہوا اور آسمانوں پر اداسی چھا گئی
اک رازداری کا حسیں آہنگ
جیسے گونجتا ہو دور تک ہر ساز میں
آواز پہلے سی نہیں رہتی
مگر آنکھوں کے موسم موسموں کا حُسن جیسے پہن لیتے ہیں
محبت چاند کی کرنوں کا ہالہ ہے
جسے بس چاند کی چاہت میں اس کے گرد رہنا ہے
سوا کرنا ہے اس کے حُسن کو
لیکن ذرا اوروں سے اس کو مختلف کر کے
محبت گیت کا احساس ہے
گر پاس ہے تو نغمگی پھوٹے گی اک اک انگ سے
ہر سنگ سے آواز آئے گی
محبت وقت کا اک کھیل ہے
دل کے کھلونوں سے کبھی کھیلے، کبھی توڑے
کبھی محفوط کر کے رکھ دیے
یا پھر
کبھی اکتا کے سب دفنا دیے لمحوں کی قبروں میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)